بلاگز
سیاست ایک گرگٹ کی مانند۔
سیاست ایک گرگٹ کی مانند۔
بلاگ
فاطمہ امجد خان۔
گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا محاورہ توآپ نے سنا ہی ہوگا لیکن شاید ہی ہم میں سے کوئی اتنا آشنا ہو کہ گرگٹ رنگ کیسے
بدلتا ہے کیوں بدلتا ہے اور اس محاورے کا مفہوم کیا ہے؟
جی ہاں! حیاتیات کی ایک جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کا خیال تھا کہ گرگٹ آپس میں رابطے کے لیے رنگ بدلتا رہتا ہے کچھ تحقیقوں میں سامنے آ یا ہے کہ گرگٹ جب رنگ بدلتا ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف خود کو نمایاں کرنا ہوتا ہے عام طور پر رینگنے والے جانوروں کے رنگ بدلنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
جیسے آپس میں رابطہ کرنا ہو ، خود کو چھپانا ہو ۔ لیکن انہیں تیز رنگ منعکس کرنے کی صالحیت کی آخر ضرورت کیوں پڑی یہ بات کافی عرصے تک واضح نہیں ہو سکی تھی۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ واضح ہوا کہ ابتداء میں گرگٹوں نے دشمن کو بھگانے کے لیے یا کسی ساتھی کو متوجہ کرنے کے لیے رنگ بدلنا شروع کیا تھا نہ کہ اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے خیر گرگٹ کا رنگ بدلنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اگر یہی رنگ بدلنے کا معاملہ انسانوں سے جڑی قوتوں سے منسلک ہو جائے تو انسانی دماغ دنگ رہ جاتا ہے کیونکہ رنگ بدلنے کے لیے گرگٹ مشہور تھا مگر اب یہ معاملہ انسانوں سے منسوب ہو گیا ہے جو کہ درست بھی لگتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انسان بدلتے رنگوں کا مجموعہ ہے اور موقع دیکھتے ہی رنگ بدل کر وار شروع کر دے گا ۔ انسانوں سے جڑی قوتیں جن میں سیاست بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سننے میں یہ آتا ہے کہ سیاست کسی گروہ کی بنائی ہوئی اس پالیسی کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد اپنے ملک کی فالح و بہبود کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
اس قوت سے جڑے لوگوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے جو ملک کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے عوام کو جھوٹے سچے وعدوں میں گھیر کر اپنی قوت کا استعمال کرتے ہیں اور پھر وقت آتا ہے کہ وہ اپنے وعدے بھول کر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔
اپنے اپنے مفادات کی خاطر وہی سیاستدان ایسے ایسے رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے میں والے بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ سچ میں جھوٹ کی آمیزش کر لی جاتی ہے یا جھوٹ کو نئے انداز میں پیش کر دیا جاتا ہے۔
آسمان پر پہنچنے کی خواہش میں کون کب کس کے پاؤں کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لے اس کا پتہ نہیں چلتا لیکن سیڑھی پر موجود فرد کو احساس تب ہوتا ہے جب وہ گر جاتا ہے یا پھر گرنے کے قریب ہوتا ہے۔
ایسے ہی چند حلقوں کے بدلنے سے کبھی ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھتا ہے ، تو کبھی عمران خان جیل میں قیدی بن جاتا ہے کبھی نواز شریف کو ملک بدر کیا جاتا ہے ، کبھی بے نظیر کو گولی مار کر شہید کیا جاتا ہے۔
یہ وہ رنگ ہیں جو آسمان پر پہنچانے میں بھی ماہر ہیں اور آسمان سے زمین پر گرانے میں بھی کبھی اقتدار کا مالک جنرل
بن جاتا ہے کبھی ان پڑھ اور کبھی تعلیم سے بھرپور فرد۔
یہ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار ہو رہا ہے بلکہ یہ رنگ بدلنے کا عمل ماضی سے چلتا آرہا ہے اور ہر بار سیاست نے رنگ ہی بدال ہے۔ فیض یاب کرنے والے جب رنگ بدلتے ہیں تو اقتدار چھین لیتے ہیں اور بے فیض ہونے والے رنگ بدلیں تو النے والوں کو بے نقاب کر دیتے ہیں اور جب کردار بدل جائیں تو سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ ہر کردار کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے پھر وہ ریاست نہیں سیاست دیکھتے ہیں۔
سیاست اور سیاست دانوں کی بدلتے رنگ تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بہرحال تمام رنگوں سے باالتر رنگ تو انہی کا ہے جو ان رنگوں سے کھیلنے میں ماہر ہیں۔
پرانے رنگ پھیکے پڑے نہیں ہوتے کہ نیا رنگ بدلنے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے اور اب عوام کو بھی ان رنگوں کی عادت پڑ چکی ہے۔
اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ رنگ کس کے لیے خوشی کا سبب بنے گا اور کس کے لیے غم کا ۔ ہمارے سیاستدان یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے ریاست ہو کیا نقصان ہو رہا ہے۔
بس اپنی من مستی اور نئے نئے تجربات کی وجہ سے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگنے کو ہے۔ اصل خرابی کو نظر انداز کر کے ہم ظاہری طور پر چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور ہے اور اختیارات کسی اور کے پاس ہیں۔ لیکن اب رنگوں کے اتار چڑھاؤ سے نکل کر ہمیں مستقل حل کی تالش کرنی ہوگی۔
فاطمہ امجد خان
طلبہ شعبہ ُصحافت
کوہاٹ یونیورسٹی اف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
Fatima Amjid Khan
May 22, 2024 at 3:08 pm
Firstly, great gratitude of your cooperation and your support.
Secondly I want to share my ideology about my feature that why I choose this topic to write about it. I wrote this feature after thinking too much because I think that people are violating the concept of leadership and they’re ignoring the main objective of politics and are creating too much issues either personally or any other. So, the main point that I want to that people think politics is not a permanent game of your development, your success and your strength, it’s just a game and changes at anytime it’s like a chameleon therefore, just avoid the wrong concepts and think about others not only about yourself.
admin
May 22, 2024 at 3:28 pm
Thank you!
Munazir khattak
May 22, 2024 at 3:34 pm
Agreed
Munazir khattak
May 22, 2024 at 3:33 pm
اس کو پڑ کر ایسا لگ رہا ہیں کہ پاکستان میں اب بھی کوئی ہیں جو پاکستان کے بارے میں ابھی ۔بھی سوچ رہا ہیں میں پورا اتفاق کرتا ہو اس تحریر سے لیکن جب پانسی جیل گولی کی بات ائی وہا پر ایک نام با چا خان بھی ہیں اور یہ حقیقت ہیں کہ ہم ہمیشہ۔ اس مولوی کے پیچے نماز پڑنا پسند کرتے جو ہمیں اپنے اپ سے دین پر نئے نئے تجربات کرتے ہیں اور نئے نئے فتوے نکالتے ہیں بہر حال یہ بات مولویوں کے لیے نہیں تی۔