Connect with us

خیبرپختونخواہ

آپ نے ایم پی اے کو جرمانہ کیوں کیا؟ پولیس اہلکار معطل

ایم پی اے

پشاور۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے رکن ایم پی اے شیر علی آفریدی (پی کے 77) کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر پشاور کی ٹریفک پولیس نے 500 روپے جرمانہ کیا۔ جس کے بعد ایک تنازع کھڑا ہوگیا۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب چیف ٹریفک پولیس آفیسر نے ان دونوں اہلکاروں کی معطلی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جو ایم پی اے شیر علی آفریدی کو جرمانہ کرنے میں شامل تھے۔

چیف ٹریفک پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ دونوں اہلکاروں کو ایم پی اے کے ساتھ بدتمیزی کرنے کے الزام میں معطل کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کا رویہ غیر پیشہ ورانہ تھا اور انہوں نے ایم پی اے کے ساتھ نازیبا سلوک کیا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تاہم، اس فیصلے پر عوام میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

عوام کا کہنا ہے کہ ایم پی اے شیر علی آفریدی نے اپنی سیاسی طاقت اور تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو معطل کروایا کیونکہ انہوں نے ایم پی اے کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 500 روپے جرمانہ کیا تھا۔ عوامی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ ایم پی اے نے اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور سزا دینے کے بجائے خود کو بچانے کی کوشش کی۔

سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ کئی لوگوں نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی معطلی کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے اور ان کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اپنا فرض نبھایا اور کسی بھی شہری کو، خواہ وہ کتنی ہی بڑی سیاسی شخصیت کیوں نہ ہو، ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہئے۔

دوسری جانب، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو چاہئے تھا کہ وہ ایم پی اے کے ساتھ نرمی برتتے اور اس معاملے کو بہتر طریقے سے ہینڈل کرتے تاکہ کسی قسم کا تنازع کھڑا نہ ہو۔ تاہم، اس واقعے نے ایک اہم سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا قانون سب کے لئے برابر ہے یا نہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت اور ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور اگر پولیس اہلکار بے قصور ثابت ہوں تو ان کی بحالی کی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ، عوام کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ایم پی اے کو بھی قانون کی پاسداری کرنی چاہئے اور اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔

ایم پی اے
Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *