پاکستان
بنوں میں دہشت گردی اور ریاستی نسل کشی کے خلاف ہزاروں افراد کا پرامن احتجاج۔

بنوں- خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں آج ہزاروں افراد نے دہشت گردی اور ریاستی نسل کشی کے خلاف پرامن احتجاج کیا۔ مظاہرین نے صوبے میں امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کے خوف کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
آج صبح بنوں کے مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد نے ایک عظیم الشان ریلی کی شکل میں شہر کی مرکزی سڑکوں پر مارچ کیا۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر دہشت گردی اور ریاستی ظلم و ستم کے خلاف نعرے درج تھے۔ احتجاج کے شرکاء نے پر امن طریقے سے اپنے مطالبات پیش کیے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔
پرامن احتجاج کے دوران، حالات اُس وقت سنگین ہوگئے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص شہید اور تین درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے۔
واقعے کے بعد علاقے میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کی مذمت
بنوں امن مارچ کے شرکاء پر براہ راست فائرنگ شرمناک ہے، ایمل ولی خان
یہ ناروا عمل ثبوت ہے کہ ریاست امن کی بجائے شدت پسندی کے ساتھ کھڑی ہے دنیا کا کونسا قانون اور مذہب اس طرح کے عمل کی اجازت دیتا ہے؟ کیا پختونوں کا امن کے قیام اور دہشتگردی کے خاتمے کا مطالبہ جرم ہے؟
بتایا جائے کیا اپنے تحفظ کیلئے آواز اٹھانا گناہ بن گیا ہے؟ فیض آباد میں پرتشدد مظاہرے ہوتے ہیں شرکاء کو انعام میں کھڑک دار نوٹ ملتے ہیں۔
پرامن اور نہتے پختون امن کیلئے نکلتے ہیں تو انکو تحفے میں گولیاں ملتی ہیں یہ ہے وہ دو قومی نظریہ جسکی ہم مخالفت کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی نہتے اور پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی بھرپور مذمت کرتی ہے عوامی نیشنل پارٹی بنوں امن مارچ کے تمام جائز مطالبات کی حمایت کرتی ہے۔
یہ ناروا عمل عوام کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی سازش ہے فائرنگ کن کے حکم پر کس نے کرائی، تحقیقات کرائیں جائیں۔
سازش میں ملوث تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے عوامی نیشنل پارٹی بنوں امن مارچ کے شرکاء کے ساتھ کھڑی ہے۔
بنوں میں آج کا واقعہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس نے عوام کے دلوں میں دہشت گردی اور ریاستی ظلم کے خلاف احتجاج کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے جائز مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرے۔