تازہ ترین
آزاد جموں و کشمیر کی راولاکوٹ جیل سے 19 قیدی فرار۔
پولیس اور سرکاری ذرائع نے بتایا کہ آزاد جموں و کشمیر میں سیکیورٹی کی ایک بڑی خلاف ورزی کرتے ہوئے راولاکوٹ جیل سے سزائے موت کے 6 قیدیوں سمیت 19 قیدی فرار ہوگئے جب کہ فرار کے دوران زخمی ہونے والا ایک قیدی مقامی اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
یہ واقعہ پونچھ کے ضلعی اور ڈویژنل ہیڈکوارٹر راولاکوٹ میں دوپہر 2 بجے سے 2:30 بجے کے درمیان پیش آیا۔
قصبے کے وسط میں ضلعی عدالتوں سے ملحقہ تیس سال پرانی جیل کافی عرصے سے خستہ حالی کا شکار ہے جب کہ قصبے کے مضافات میں جیل کی نئی جگہ پر کام کا آغاز ہونا ابھی باقی ہے۔
جیل توڑنے کے عمل میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت جیل کے 8 اہلکاروں کو تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا گیا جب کہ آزاد جموں و کشمیر حکومت نے ایک ہفتے میں واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔
رات گئے ایک پریس ریلیز میں، انفارمیشن سیکرٹری انصار یعقوب نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے جیل حکام کو معطل کر دیا ہے، اس کے علاوہ اسپیشل ہوم سیکرٹری بدر منیر کو ہٹا دیا گیا ہے، جو سابق انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات ہیں۔
وہ او ایس ڈی کے طور پر محکمہ سروسز سے منسلک تھے۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ حکومت نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی بھی درخواست کی۔
پونچھ کمشنر سردار وحید خان اور ایس پی ریاض مغل نے جیل انتظامیہ کی جانب سے ابتدائی معلومات صحافیوں کے ساتھ شیئر کیں۔
واقعہ کیسے ہوا؟
ان کا کہنا تھا کہ ایک قیدی نے ایک پولیس اہلکار سے کہا تھا کہ وہ اپنی “لسّی” کو اپنی بیرک سے باہر لے جائے۔ جب پولیس اہلکار راضی ہوا تو قیدی نے حملہ کر کے اس پر قابو پالیا، اس کی چابیاں چھین لیں اور دوسری بیرک کھول دی جہاں سے کم از کم 19 قیدی مرکزی گیٹ تک پہنچ گئے۔
اس موقع پر ایک پستول چھت سے اندر پھینکا گیا جو اندر سے تالا توڑنے کے لیے استعمال ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے دوران ایک قیدی زخمی ہوا، لیکن دیگر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
فرار ہونے والے قیدیوں میں سزائے موت کے چھ قیدی بھی شامل ہیں۔ فرار ہونے کی قیادت مبینہ طور پر آزاد جموں و کشمیر کے سدھنوتی ضلع سے غازی شہزاد نے کی تھی، جسے محکمہ انسداد دہشت گردی نے گزشتہ سال ہجیرہ قصبے سے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 6 اور آزاد پینل کوڈ (اے پی سی) کے سیکشن 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، اسے ابھی تک مجرم قرار نہیں دیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہزاد کے تین ساتھی فرار نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ شخص جس نے گزشتہ ستمبر میں راولاکوٹ کی ایک مسجد میں جماعت الدعوۃ کے ایک سابق عسکریت پسند کو قتل کیا تھا۔
قیدیوں کو کسی اور جیل میں منتقل کرنے کا فیصلہ
واضح رہے کہ 15 جون کو آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے شہزاد کا مقدمہ پونچھ کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سے میرپور اے ٹی سی منتقل کرنے کی منظوری دی تھی کیونکہ پونچھ جیل سخت گیر مجرموں کو حراست میں رکھنے کے لیے انتہائی غیر محفوظ تھی۔
حکام کی طرف سے فراہم کردہ ہاتھ سے لکھی گئی فہرست کے مطابق، دیگر قیدیوں کی شناخت ثاقب مجید، عثمان افراز، شمیر اعظم، عامر عبداللہ، فیصل حمید، نذیر یاسین (تمام سزائے موت پر) کے طور پر ہوئی ہے۔ نعمان آصف، آصف دل محمد، ثقلین سرفراز (ہر ایک 25 سال کی سزا کاٹ رہا ہے) مکرم فیصل، ساجد نصیر، سہیل رشید (10 سالہ مدت)؛ ہیبت اللہ، فیضان عزیز، اسامہ مرتضیٰ، امامہ مصطفیٰ، اور محمد شبیر (تمام زیر سماعت قتل کے قیدی)۔
ہلاک ہونے والے قیدی کی شناخت محمد خیام کے نام سے ہوئی ہے، جو راولاکوٹ کے نواح میں واقع گاؤں متیالمیرا کا رہائشی تھا، جسے اے پی سی کی دفعہ 9 سی کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
بعد ازاں، پورے ڈویژن میں پولیس کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا، اور قیدیوں کو دوبارہ پکڑنے کے لیے پونچھ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو سیل کر دیا گیا۔
آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کی کمیٹی واقعے کی تحقیقات کرکے ایک ہفتے میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ محکمہ داخلہ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، کمیٹی کے سربراہ چوہدری محمد رقیب، سیکرٹری آزاد جموں و کشمیر ان لینڈ ریونیو ہیں، جس میں کمشنر سردار وحید خان اور ڈی آئی جی پونچھ رینج شہریار سکندر ممبران ہیں۔
کمیٹی کو ذمہ داروں یا افسران اور کسی دوسرے شخص کی نشاندہی کرنے کا کام سونپا گیا ہے جو اپنے فرائض میں غفلت یا قیدیوں کی مدد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ان عوامل کا بھی تعین کرے گا جو جیل بریک کا باعث بنے اور ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کریں گے۔